مفتی اعظم الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن
محمد مصطفیٰ رضا خان قادری برکاتی نوری
علیہ الرحمۃ والرضوان
ولادت با سعادت
مرجع العلماء و الفقہاء سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت ۔ ۲۲ذوالحجہ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔
پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ ہے ۔ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری قدس سرہ العزیزنے آل الرحمن ابو البرکات نام تجویز فرمایا اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لا کر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ یہ بچہ دین و ملت کی بڑ ی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے ۔
مرشد کامل کی بشارت
سید المشائخ حضرت شاہ سیدابوالحسین احمد نوری رضی اللہ عنہ نے حضرت مفتی اعظم کو بیعت کرتے وقت ارشاد فرمایا!!!''یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوقِ خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گم راہ انسان دینِ حق پر قائم ہوں گے۔ یہ فیض کادریا بہائےگا''۔
سید المشائخ حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حلقہئ بیعت میں لینے کے بعد قادری نسبت کا دریائے فیض بناکر ابوالبرکات کو امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی گود میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا!!!''مبارک ہو آپ کویہ قرآنی آیت،واجعل لی وزیرا من اھلی کی تفسیر مقبول ہوکر آپ کی گود میں آگئی ہے۔ آل الرحمن۔ محمد۔ ابوالبرکات محی الدین جیلانی مصطفی رضا''۔
اس مبارک نام پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی شخص میں محاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کاہر کام تشنہ تو صیف محسوس ہوتا ہے۔ اور ذوق ستائش کسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس نام میں پہلی نسبت رحمن سے ہے۔ دوسری نسبت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ تیسری نسبت سیدنا حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی علیہ الرحمہ سے ہے۔
تیسری نسبت کے بعد عزیمت میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے نسبت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یہ اہتمام تو اکابرکی بالغ نظری نے کیا تھا۔ مگر لاکھوں افراد نے جب اس منبعِ خیر وفلاح اور سرچشمہ ہدایت سے قریب ہوکر فیوض وبرکات حاصل کیے تو وہ بھی اپنے جذبہئ ستائش پر قابونہ پاسکے۔ آج حضرت مفتی اعظم مختلف ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے صفات کا پر تو انہیں پرڈالتا ہے جو اس کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہوجاتے ہیں۔
حصول علم
سخن آموزی کے منزل طے کرنے کے بعد آپ کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا ا ور آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد ماجد سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ ۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان۔ استاذ الاساتذہ علامہ شاہ رحم الہی منگلوری ۔ شیخ العلماء علامہ شاہ سید بشیر احمد علی گڑ ھی ۔ شمس العلماء علامہ
ظہور الحسین فاروقی رامپوری سے حاصل کئے اور ۱۸ سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون حاصل کر کے سند فراغت حاصل کی ۔
تدریس
فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ہی میں مسند تدریس کو رونق بخشی۔، تقریبا ًتیس سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے ۔ بر صغیر پاک و ہند کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالا مال ہیں ۔
طریقہ تعلیم
فقیہ ذی شان مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی مدیر عام''الادارۃ الحنفیہ'' کشن گنج بہار حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے طریقہئ تعلیم اور درس افتاء میں امتیازی شان بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
حضور مفتی اعظم درسِ افتاء میں اس کا التزام فرماتے تھے کہ محض نفسِ حکم سے واقفیت نہ ہو بلکہ اس کے ماعلیہ ومالہ کے تمام نشیب وفراز ذہن نشین ہوجائیں۔ پہلے آیات واحادیث سے استدلال کرتے، پھر اصولِ فقہ وحدیث سے اس کی تائید دکھاتے اور قواعدِ کلیہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لے کر کتب فقہ سے جزئیات پیش فرماتے ،پھر مزید اطمینان کےلئے فتاویٰ رضویہ یا اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ کا ارشاد نقل فرماتے۔ اگر مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو قولِ راجح کی تعیین دلائل سے کرتے اور اصولِ افتا کی روشنی میں ماعلیہ الفتویٰ کی نشاندہی کرتے۔ پھر فتاویٰ رضویہ یااعلیٰحضرت علیہ الرحمہ کے ارشاد سے اس کی تائید پیش فرماتے۔ مگر عموماً یہ سب زبانی ہوتا۔ عام طور سے جواب بہت مختصر اور سادہ لکھنے کی تاکید فرماتے۔ ہاں کسی عالم کا بھیجا ہوا استفتا ہوتا اور وہ ان تفصیلات کا خواستگار ہوتا تو پھر جواب میں وہی رنگ اختیار کرنے کی بات ارشاد فرماتے۔
فقیہ العصر شارح بخاری مولانا محمد شریف الحق امجدی صدر مفتی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور حضرت امام الفقہاء مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے درسِ افتا اور اصلاح فتاویٰ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں!!
''میں گیارہ سال تین ماہ خدمت میں حاضر رہا۔ اس مدت میں چوبیس ہزار مسائل لکھے ہیں، جن میں کم از کم دس ہزار وہ ہیں جن پر حضرت مفتی اعظم کی تصحیح وتصدیق ہے۔ عالم یہ ہوتا کہ دن بھر بلکہ بعد مغرب بھی دوگھنٹے تک حاجت مندوں کی بھیڑرہتی۔ یہ حاجت مند خوشخبری لے کر نہیں آتے،سب اپنا اپنا دکھڑا سناتے، غم آگیں واقعات سننے کے بعد دل ودماغ کا کیا حال ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اتنے طویل عرصے تک اس غم آفریں ماحول سے فارغ ہونے کے بعد، عشا بعد پھر تشریف رکھتے اور میں اپنے لکھے ہوئے مسائل سناتا۔ میں گھساپٹا نہیں،بہت سوچ سمجھ کر، جانچ تول کر مسئلہ لکھتا،مگر واہ رے مفتی اعظم۔اگر کہیں ذرا بھی غلطی ہے، یالوچ ہے یا بے ربطی ہے۔ یاتعبیر غیر مناسب ہے۔ یا سوال کے ماحول کے مطابق جواب میں کمی بیشی ہے۔ یا کہیں سے کوئی غلط فہمی کا ذرا بھی اندیشہ ہے فوراً اس پر تنبیہ فرمادیتے اور مناسب اصلاح۔تنقید آسان ہے مگر اصلاح دشوار۔ جو لکھا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے، اس کو کوئی بھی ذہین نقاد کہہ سکتا ہے،مگر اسکو بدل کرکیا لکھاجائے،یہ جوئے شیرلانے سے کم نہیں ہے۔ مگر ستر سالہ مفتی اعظم کا دماغ اور علم ایسا جوان تھاکہ تنقیدکے بعد فوراً اصلاح فرمادیتے اور ایسی اصلاح کہ پھر قلم ٹوٹ کررہ جاتا''۔
کبھی ایسے جاں فزاتبسم کے ساتھ کہ قربان ہونے کا جذبہ حد اضطرار کو پہنچ جائے۔ کبھی ایسے جلال کے ساتھ کہ اعصاب جواب دے جائیں۔ مگر اس جلال کو کون سانام دیں جس کے بعد مخاطب کی جرأت رندانہ اور بڑھ جاتی۔ کیا کیجئے گا اگر جلال سے مرعوب ہوکر چپ رہتے تو اور جلال بڑھتا،بڑھتا رہتا،یہاں تک کہ مخاطب کو عرض ومعروض کرنا ہی پڑتا۔ یہ جلال وہ جلال تھا کہ جو اس کا مورد بناکندن ہوگیا۔
یہ مجلس آدھی رات سے پہلے کبھی ختم نہ ہوتی۔ بار ہارات کے دوبج جاتے اور رمضان شریف میں توسحری کا وقت روز ہوجاتا۔
بارہا ایسا ہوتا کہ حکم کی تائید میں کوئی عبارت نہ ملتی تو میں اپنی صواب دیدسے حکم لکھ کردیتا۔ کبھی دوردراز کی عبارت سے تائید لاتا۔مگر مفتی اعظم ان کتابوں کی عبارتیں جودارالافتاء میں نہ تھیں زبانی لکھوادیتے۔ میں حیران رہ جاتا۔ یا اللہ کبھی کتاب کا مطالعہ کرتے نہیں،یہ عبارتیں زبانی کیسے یاد ہیں؟پیچیدہ سے پیچیدہ دقیق سے دقیق مسائل پر بداہۃً ایسی تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا تھا اس پر بڑی محنت سے تیاری کی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ کلام بہت کم فرماتے مگر جب ضرورت ہوتی تو ایسی بحث فرماتے کہ اجلہ علماء انگشت بدنداں رہ جاتے۔ کسی مسئلہ میں فقہا کے متعدد اقوال ہیں تو سب دماغ میںہروقت حاضر رہتے۔ سب کے دلائل،وجوہ ترجیح اور قولِ مختار ومفتی بہ پر تیقن اور ان سب اقوال پر اس کی وجہ ترجیح سب ازبر۔ باب نکاح میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس کی بہتّر صورتیں ہیں اور کثیر الوقوع بھی ہیں۔ پہلی بار جب میں نے اس کو لکھا،سوال مبہم تھا۔ میں نے بیس،پچیس شق قائم کرکے چارورق فل اسکیپ کا غذپر لکھا جب سنانے بیٹھا تو فرمایا!!!''یہ طول طویل شق درشق جواب کون سمجھ پائےگا؟ پھر اگر لوگ ناخداترس ہوئے تو جوشق اپنے مطلب کی ہوگی اس کے مطابق واقعہ بنالیں گے۔ آج ہندوستان میں یہ صورت رائج ہے اسی کے مطابق حکم لکھ کر بھیج دیں یہ قیدلگا کر کہ آپ کے یہاں یہی صورت تھی تو حکم یہ ہے''۔
یہ جواب فل اسکیپ کے آدھے ورق سے بھی کم پر مع تائیدات آگیا۔
اس واقعہ نے بتایا کہ کتب بینی سے علم حاصل کرلینا اور بات ہے اور فتویٰ لکھنا اور بات۔
مجاہدانہ زندگی
آپ کی ۹۲ سالہ حیات مبارکہ میں زندگی کے مختلف موڑ آئے ۔ کبھی شدھی تحریک کا قلع قمع کرنے کیلئے جماعت رضائے مصطفی کی صدارت فرمائی اور باطل پرستوں سے پنجہ آزمائی کیلئے سر سے کفن باندھ کر میدان خارز ارمیں کود پڑ ے ، لاکھوں انسانوں کو کلمہ پڑ ھایا اور بے شمار مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔ قیام پاکستان کے نعرے اور خلافت کمیٹی کی آوازیں بھی آپ کے دور میں اٹھیں اور ہزاروں شخصیات اس سے متاثر ہوئیں۔ نسبندی کا طوفان بلا خیز آپ کے آخری دور میں رونما ہوا اور بڑ ے بڑ ے ثابت قدم متزلزل ہوگئے لیکن ہر دور میں آپ استقامت فی الدین کا جبل عظیم بن کر ان حوادث زمانہ کا مقابلہ خندہ پیشانی سے فرماتے رہے ۔
آپ نے اس دور پر فتن میں نسبندی کی حرمت کا فتوی صادر فرمایا جبکہ عموما دینی ادارے خاموش تھے ، یا پھر جواز کا فتوی دے چکے تھے ۔
عبادت و ریاضت
سفر و حضر ہر موقع پر کبھی آپ کی نماز پنجگانہ قضا نہیں ہوتی تھی، ہر نماز وقت پر ادا فرماتے ، سفر میں نماز کا اہتمام نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن حضر ت پوری حیات مبارکہ اس پر عامل رہے ۔ اس سلسلہ میں چشم دید واقعات لوگ بیان کرتے ہیں کہ نماز کی ادائیگی و اہتمام کیلئے ٹرین چھوٹنے کی بھی پرواہ نہیں فرماتے تھے ، خود نماز ادا کرتے اور ساتھیوں کو بھی سخت تاکید فرماتے ۔
زیارت حرمین شریفین
آپ نے تقسیم ہند سے پہلے دو مرتبہ حج و زیارت کیلئے سفر فرمایا، اس کے بعد تیسری مرتبہ ۱۳۹۱ ھ / ۱۹۷۱ ء میں جب کہ فوٹو لازم ہو چکا تھا لیکن آپ اپنی حزم و احتیاط پر قائم رہے لہذا آپ کو پاسپورٹ وغیرہ ضروری پابندیوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا اور آپ حج و زیارت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔
سفرحج و مسئلہ تصویر
آپ نے تین مرتبہ حج و زیارت کی سعادت حاصل کی مگر کبھی تصویر نہیں بنوائی بلکہ ہر بار بغیر تصویر کے پاسپورٹ سے حج پر تشریف لے گئے۔ تیسری مرتبہ حج بیت اللہ پر جاتے وقت حکومت بھارت کی جانب سے پاسپورٹ پر تصویر لگانےکا قانون سخت ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ سے تصویر لگانے کا کہا گیا تو آپ نے برجستہ انکار کرتے ہوئے فرمایا" مجھ پر جو حج فرض تھا وہ میں نے کرلیا، اب نفل حج کیلئے اتنا بڑا ناجائز کام کرکے دربار مصطفوی میں کیسے حاضر ہوسکتا ہوں، میں تصویر ہرگز نہیں کھینچواؤں گا۔ جب اس سے قبل گیا تھا، اس وقت تصویر کی پابندی نہیں تھی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ میں تصویر کھینچوانا،رکھنا،بنانا سب حرام ہے،میں اس رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں تصویر کھینچوا جاؤں، یہ مجھ سے نہیں ہوگا"۔ حضور تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس غلام کی استقامت و اتباع سنت کی یہ ادا پسند آئی تو اپنے دربار میں حاضری کیلئے خصوصی انتظام فرمایا اور احباب نے جب بغیر تصویر پاسپورٹ کیلئے کوشش کی تو حکومت ہند اور حکومت سعودی عرب نے آپ کو خصوصی اجازت نامہ جاری کیا اور پھر جب آپ جدہ پہنچے تو آپ کا شاندار استقبال کیا گیا اور جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو برہنہ پاپیادہ آنکھوں سے آنسو جاری اور جسم پر رقت طاری تھی اور حاضری مدینہ طیبہ کا بڑا پُر کیف و ایمان افروز منظر تھا۔
فتوی نویسی کی مدت
آپ کے خاندان کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ تقریبا ً ڈیڑ ھ سو سال سے فتوی نویسی کا گراں قدر فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ ۱۸۳۱ ھ میں سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے جد امجد امام العلماء حضرت مفتی رضا علی خاں صاحب قدس سرہ نے بریلی کی سر زمین پر مسند افتاء کی بنیاد رکھی ، پھر اعلیٰ حضرت کے والد ماجد علامہ مفتی نقی علی خاں صاحب قدس سرہ نے یہ فریضہ انجام دیا اور متحدہ پاک و ہند کے جلیل القدر علماء میں آپ کو سر فہرست مقام حاصل تھا ، ان کے بعد امام احمد رضا قد س سرہ نے تقریبا نصف صدی تک علوم و معارف کے دریا بہائے اور فضل و کمال کے ایسے جوہر دکھائے کہ علمائے ہندہی نہیں بلکہ فقہائے حرمین طیبین سے بھی خراج تحسین وصول کیا اور سب نے بالاتفاق چودہویں صدی کا مجدد اعظم تسلیم کیا ۔
آپ کے وصال اقدس کے بعد آپ کے فرزند اکبر حجۃ الاسلام نے اس منصب کو زینت بخشی اور پھر باقاعدہ سیدنا حضور مفتی اعظم کو یہ عہدہ تفویض ہوا جس کا آغاز خود امام احمد رضا کی حیات طیبہ ہی میں ہو چکا تھا ۔
آپ نے مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی نو عمری کے زمانے میں بغیر کسی کتاب کی طرف رجوع کئے تحریر فرمایا تو اس سے متاثر ہو کر امام احمد رضا نے فتوی نویسی کی عام اجازت فرمادی اور مہر بھی بنوا کر مرحمت فرمائی جس پر یہ عبارت کندہ تھی ’’ابو البرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن محمد عرف مصطفی رضا‘‘
یہ مہر دینی شعورکی سند اور اصابت فکر کا اعلان تھی۔ بلکہ خود امام احمد رضا نے جب پورے ہندوستان کے لئے دار القضاء شرعی کا قیام فرمایا تو قاضی و مفتی کا منصب صدر الشریعہ ، مفتی اعظم اور برہان الحق جبل پوری قدس اسرارہم کو عطا فرمایا ۔
غرضکہ آپ نے نصف صدی سے زیادہ مدت تک لاکھوں فتاوی لکھے ۔ اہل ہندو پاک اپنے الجھے ہوئے مسائل آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے اور ہر پیدا ہونے والے مسئلہ میں فیصلہ کے لئے نگاہیں آپ ہی کی طرف اٹھتی تھیں ۔ آپ کے فتاوی کا وہ ذخیرہ محفوظ نہ رہ سکا ورنہ آج وہ اپنی ضخانت و مجلدات کے اعتبار سے دوسرا فتاوی رضویہ ہوتا۔
تصنیفات و ترتیبات
آپ کی تصانیف علم و تحقیق کا منارہ ہدایت ہیں ۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں حق تحقیق ادا فرماتے ہیں ، فقیہ ملت حضرت مفی جلال الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ نے آپ کی تصانیف کا تعارف تحریر فرمایا ہے اسی کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے ۔
1 المکرمۃ النبویۃ فی اللفتاوی المصطفوی (یہ پہلے تین حصوں میں عالی جناب قربان علی صاحب کے اہتمام میں شائع ہو ا تھا ۔ اب ایک ضخیم جلد میں حضرت فقیہ ملت علیہ الر حمہ کی نگرانی میں رضا اکیڈمی بمبئی سے شائع ہو ا ہے جو حسن صوری و معنوی سے مالا مال ہے.)
2 اشد العذاب علی عابد الخناس (۱۳۲۸) تحذیر الناس کا رد بلیغ
3 وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان (۱۳۳۰) بسط البنان اور تحذیر الناس پر تنقید اور۱۳۲سوالا ت کامجموعہ
4 الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی (۱۳۳۱) تفسیر نعمانی کے مولف پر حکم کفر وارتداد گویا یہ حسام الحرمین کا خلاصہ ہے
5 النکتہ علی مراۃ کلکتہ (۱۳۳۲) اذان خارج مسجد ہونے پر ائمہ کی تصریحات کا خلاصہ
6 صلیم الدیان لتقطیع حبالۃ الشیطان (۱۳۳۲)
7 سیف القہار علی عبد الکفار (۱۳۳۲)
8 نفی العار عن معائب المولوی عبد الغفار (۱۳۳۲)
9 مقتل کذب وکید (۱۳۳۲)
10 مقتل اکذب و اجہل (۱۳۳۲) اذان ثانی کے تعلق سے سے مولوی عبد الغفار خاں رامپور ی کی متعدد تحریروں کے رد میں یہ رسائل لکھے گئے
11 ادخال السنان الی الحنک الحلق البسط البنان (۱۳۳۲)
12 وقایۃ اہل السنۃ عن مکر دیوبند و الفتنۃ (۱۳۳۲) اذان ثانی سے متعلق آیک کانپوری دیوبندی کا رد
13 الہی ضرب بہ اہل الحرب (۱۳۳۲)
14 الموت الاحمر علی کل انحس اکفر (۱۳۳۷) موضوع تکفیر پر نہایت معرکۃ الآراء بحثیں اس کتاب میں تحقیق سے پیش کی گئی ہیں
15 الملفوظ ، چار حصے (۳۳۸ا) امام احمد رضا قدس سرہ کے ملفوظات
16 القول العجیب فی جواز التثویب (۱۳۳۹) اذان کے بعد صلوۃ پکارنے کا ثبوت
17 الطاری الداری لہفوات عبد الباری (۱۳۳۹) امام احمد رضا فاضل بریلو ی اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے درمیان مراسلت کا مجموعہ
18 طرق ا لہدی و الارشاد الی احکام الامارۃ و الجہاد (۱۳۴۱) اس رسالہ میں جہاد، خلافت ، ترک موالات ، ، نان کو آپریشن اور قربانی گاؤ وغیرہ کے متعلق چھہ سوالات کے جوابات
19 فصل الخلافۃ (۱۳۴۱) اس کا دوسر ا نام سوراج در سوراخ ہے اور مسئلہ خلافت سے متعلق ہے
20 حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ (۱۳۴۲) بعض لیڈروں کا رد جنہوں نے حج بیت اللہ سے ممانعت کی تھی اور کہا تھا کہ شریف مکہ ظالم ہے
21 القسورۃ علی ادوار الحمر الکفرۃ (۱۳۴۳) جس کا لقبی نام ظفر علی رمۃ کفر۔۔اخبار زمیندار میں شائع ہونے والے تین کفری اشعارکارد بلیغ
22 سامان بخشش (نعتیہ دیوان) ( ۱۳۴۷)
23 طرد الشیطان (عربی) نجدی حکومت کی جانب سے لگائے گئے حج ٹیکس کا رد
24 مسائل سماع
25 سلک مرادآباد پر معترضانہ رمارک
26 نہایۃ السنان بسط البنان کا تیسرارد
27 شفاء العی فی جواب سوال بمبئی اہل قرآن اور غیر مقلدین کا اجتماعی رد
28 الکاوی فی العاوی و الغاوی (۱۳۳۰)
29 القثم القاصم للداسم القاسم (۱۳۳۰)
30 نور الفرقان بین جند الالہ و احزاب الشیطان (۱۳۳۰)
31 تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ
32 وہابیہ کی تقیہ بازی
33 الحجۃ الباہرہ
34 نور العرفان
35 داڑ ھی کا مسئلہ
36 حاشیہ الاستمداد ( کشف ضلال ویوبند)
37 حاشیہ فتاوی رضویہ اول
38 حاشیہ فتاوی رضویہ پنجم
بعض مشاہیر تلامذہ
بعض مشہور تلامذئہ کرام کے اسماء اس طرح ہیں جو بجائے خود استاذ الاساتذہ شمار کئے جاتے ہیں ۔
۱۔ شیر بشیۂ اہل سنت حضرت علامہ محمد حشمت علی خاں صاحب قدس سرہ
۲۔ محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان
۳۔ فقیہ عصر مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خاں صاحب بریلی شریف علیہ الرحمۃ و الرضوان
۴۔ فقیہ عصر شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی دامت علیہ الرحمہ
۵۔ محدث کبیر علامہ محمد ضیاء المصطفی اعظمی شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
۶۔ بلبل ہند مفتی محمد رجب علی صاحب نانپاروی ، بہرائچ شریف
۷۔ شیخ العلماء مفتی غلام جیلانی صاحب گھوسوی
مستفیدین اور درس افتاء کے تلامذہ کی فہرست نہایت طویل ہے جن کے احاطہ کی اس مختصر میں گنجائش نہیں ، صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ آسمان افتاء کے آفتاب و ماہتاب بنکر چمکنے والے مفتیان عظام اسی عبقری شخصیت کے خوان کرام کے خوشہ چین رہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند کو افتاء جیسے وسیع و عظیم فن میں ایسا تبحر اور ید طولیٰ حاصل تھا کہ ان کے دامن فضل و کرم سے وابستہ ہو کر ذرے ماہتاب بن گئے ۔
بعض مشاہیر خلفاء
۱۔ مفسر اعظم ہند مولانامحمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں بریلی شریف
۲۔ غزالی دوراں علامہ سید احمد سعید صاحب کاظمی، ملتان پاکستان
۳۔ مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن صاحب رئیس اعظم اڑ یسہ
۴۔ شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں صاحب، پیلی بھیت
۵۔ رازی زماں مولانا حاجی مبین الدین صاحب امروہہ ، مرآد اباد
۶۔ شہزادۂ صدر الشریعہ مولانا عبد المصطفی صاحب ازہری کراچی ، پاکستان
۷۔ شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی گھوسی، اعظم گڑ ھ
۸۔ شمس العلماء مولانا قاضی شمس الدین احمد صاحب جونپور
۹۔ محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد صاحب لائل پور ، پاکستان
۱۰۔ خطیب مشرق مولانا مشتاق احمد صاحب نظامی الہ آباد۔
۱۱۔ پیر طریقت مولانا قاری مصلح الدین صاحب کراچی پاکستان
۱۲۔ استاذ العلماء مولانا محمد تحسین رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۳۔ قائد ملت مولانا ریحان رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۴۔ تاج الشریعہ مولانا محمد اختر رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۵۔ پیر طریقت مولانا سید مبشر علی میاں صاحب بہیڑ ی بریلی شریف
۱۶۔ فاضل جلیل مولانا سید شاہد علی صاحب الجامعۃ الاسلامیہ رامپور
۱۷۔ حضرت مفتی محمد خلیل خاں برکاتی، پاکستان
۱۸۔ حضرت سید امین میاں قادری بارکاتی، مارہرہ شریف، انڈیا
۱۹۔ حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی، انڈیا
۲۰۔ حضرت مفتی محمد حسین قادری، سکھر، پاکستان
۲۱۔ حضرت مفتی عبد الوھاب خان قادری، لاڑکانہ، پاکستان
۲۲۔ حضرت مولانا عبد الحمید پالمر، ساوتھ
تاریخ وصال اور عمر شریف
لفظ طہ میں ہے مضمران کی تاریخ وصال
چودھویں کی رات کو وہ بے گماں جاتا رہا
محبوب ذوالجلال کا عاشق صادق، اسلام وسنت کا مہکتا گلشن شریعت وطریقت کا نیرتاباں، علم وفضل کا گوہ گراں، امام ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف، امام احمد رضا کی آنکھ کا تارا اور ہم سنیوں کا سہارا، اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد ١٤، محرم الحرام ١٤٠٢ھ بمطابق ١٢ نومبر١٩٨١ء رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا خالقِ حقیقی سے جاملا۔ اناللّٰہ واناالیہ راجعون
حضرت مفتی اعظم کے وصال پر ملال کی خبر دنیا کے مشہور ریڈیو اسٹیشنوں نے نشر کی۔ اگلے روزنماز جمعہ کے بعد اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں تین بج کر پندرہ منٹ پر نمازجنازہ ہوئی اور تقریباً چھ بجے اعلیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے بائیں پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ جو حضور مفتی اعظم کی مقبولیت وشہرت اور جلالتِ شان کا کھلا ثبوت تھا۔
١٤٠٢ھ ''پروازکرد مفتی اعظم'' بہ عیسوی ست١٩٨١ء
No comments:
Post a Comment